Sat. Aug 2nd, 2025

آسمانی بجلی گرنے سے پہلے کیا ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے معمہ حل کر لیا

386664 5732578


سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے آخرکار اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ آسمانی بجلی گرنے سے ٹھیک پہلے کیا ہوتا ہے۔

مشہور موجد اور امریکہ کے بانی بنجمن فرینکلن نے 1752 میں بجلی اور آسمانی بجلی کے درمیان تعلق دریافت کیا، لیکن ماہرین ڈھائی سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک پوری طرح یہ نہیں سمجھ سکے کہ بادل سے زمین تک بجلی کس طرح پہنچتی ہے۔

پین سٹیٹ سکول آف الیکٹریکل انجینیئرنگ اینڈ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر وکٹر پاسکو نے اس تحقیق کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری دریافت پہلی بار یہ درست اور اعدادوشمار پر مبنی وضاحت فراہم کرتی ہے کہ قدرتی طور بجلی کیسے بنتی ہے۔ یہ ایکس ریز، برقی میدان اور الیکٹرونز کی طوفانی لہروں کی فزکس کے درمیان تعلق کو واضح کرتی ہے۔‘

وہ فضائی عمل کیا ہے جو اتنی بڑی اور دھماکہ خیز برقی چنگاریوں کو جنم دیتا ہے۔ ہوا کو سورج کی سطح سے پانچ گنا زیادہ گرم کر دیتا ہے؟

پاسکو اور ان کی ٹیم کے مطابق، یہ طاقتور سلسلہ وار رد عمل عین نظر نہ آنے والی پن بال مشین کی طرح کام کرتا ہے۔ طوفان کا سبب بننے والے بادلوں کے اندر طاقتور برقی میدان الیکٹرانز کی رفتار کو بڑھاتے ہیں، جو نائٹروجن اور آکسیجن جیسی گیسوں کے مالیکیولز سے ٹکراتے ہیں۔

رد عمل کے طور پر مقناطیسی شعاعیں بنتی ہیں، جنہیں عام طور پر ایکس ریز کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید الیکٹرانز اور زیادہ توانائی کے حامل فوٹونز بھی پیدا ہوتے ہیں۔ فوٹونز روشنی کے بنیادی ذرات ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بجلی کی چمک جنم لیتی ہے۔

فضا پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کو معلوم تھا کہ بادلوں کے اندر چارج والے ذرات کیسے ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ پروٹون اوپر جاتے ہیں اور الیکٹران زمین کی طرف نیچے آتے ہیں، جس کے نتیجے میں زمین پر مثبت برقی چارج جمع ہو جاتا ہے۔

نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق، جب یہ مثبت چارج ’آگے بڑھ کر‘ قریب آتے منفی چارج سے ملتا ہے اور دونوں کے درمیان تعلق قائم ہو جاتا ہے، تو یہی برقی منتقلی ہمیں بجلی گرنے کی شکل میں نظر آتی ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان نئے نتائج تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی مصنفین نے ریاضیاتی ماڈلنگ کا استعمال کیا اور ان طبیعی حالات کی نقل تیار کی جن میں بجلی پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹریٹ کرنے والے زید پرویز نے کہا کہ ’ہم نے وضاحت کی کہ فوٹو بجلی گرنے کے واقعات کس طرح پیش آتے ہیں۔ گرجنے والے بادلوں میں کون سی حالتیں ہونی چاہییں کہ جن سے الیکٹرانز کے جھرمٹ کی ابتدا ہو سکے اور وہ کون سی چیز ہے جو بجلی گرنے سے پہلے بادلوں میں ریڈیائی سگنلز کی مختلف اقسام پیدا کرتی ہے۔

’بجلی چمکنے کی ابتدا کے بارے میں اپنی وضاحت کی تصدیق کے لیے میں نے اپنے نتائج کا موازنہ سابقہ ماڈلز اور مشاہداتی مطالعات سے کیا اور اپنی اس تحقیق سے بھی جس میں، میں نے بجلی کی ایک قسم، یعنی کمپیکٹ انٹر کلاؤڈ ڈسچارجز کا مطالعہ کیا جو عموماً گرجنے والے بادلوں میں چھوٹے اور مقامی مقامات میں ہوتی ہے۔‘

انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی جسے ’ڈارک لائٹننگ‘ یا زمینی گیما رے فلیش کہا جاتا ہے۔

یہ نظر نہ آنے والے ایکس رے جھماکے روشنی کے انہی جھماکوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جو ہمارے ماحول میں بنتے ہیں۔ یہ اکثر اس روشنی یا ریڈیائی جھماکے کے بغیر بنتے ہیں جو طوفانی موسم میں بجلی گرنے کی عام علامت ہیں۔ محققین یہ جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

پاسکو نے کہا کہ ’ہماری ماڈلنگ میں، روشنی کی رفتار کو پہنچ جانے والے الیکٹرانز کی لہروں سے پیدا ہونے والی طاقتور ایکس ریز ہوا میں فوٹو الیکٹرک اثر کے تحت نئے الیکٹرانز پیدا کرتی ہیں، جو ان لہروں کو تیزی سے بڑھا دیتے ہیں۔

’یہ عمل نہ صرف بہت محدود حصے میں ہوتا ہے، بلکہ اس کا طاقتور سلسلہ وار ردعمل مختلف قسم کی شدت کے ساتھ بھی ظاہر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ایکس ریز تو اکثر محسوس کی جا سکتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ روشنی کی اور ریڈیائی شعاعیں بہت کمزور ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گیما رے کے یہ جھماکے ایسے مقامات سے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں جو بظاہر کم روشن اور ریڈیائی اعتبار سے خاموش دکھائی دیتے ہیں۔‘

یہ بین الاقوامی تحقیق پیر کو جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ میں شائع ہوئی۔





Source link

By uttu

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *