Sat. Aug 2nd, 2025

اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں: فرانس

386573 2045514376


فرانس کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ’دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں‘ ہے۔

پیر کو سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کی کانفرنس کی صدارت کے دوران فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے کہا کہ ’صرف ایک سیاسی، دو ریاستی حل اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کی جائز خواہشات کا جواب دینے میں مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔‘

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام فلسطین پر تین روزہ کانفرنس کا پیر کو آغاز ہوا ہے۔

کانفرنس سے چند روز قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیں گے۔

اس سے قبل فرانسیسی ہفت روزہ لا تریبون دیمانش کو دیے گئے ایک انٹرویو میں باروٹ کا کہنا تھا کہ دیگر یورپی ممالک بھی کانفرنس کے دوران ’فلسطین کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے‘ کی تصدیق کریں گے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کون کون سے ملک؟

فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ نے کانفرنس کے آغاز پر کہا کہ ’تمام ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اب عمل کریں۔‘

انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بین الاقوامی فورس کی مدد پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی ریاست کو کسی تاخیر کے بغیر تسلیم کر لیں۔‘

فرانس کو امید ہے کہ برطانیہ بھی قدم اٹھائے گا۔ جمعے کو برطانیہ کے 200 سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ نے اس تجویز کی حمایت کی لیکن وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے ایک بار پھر کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ’ایک وسیع تر منصوبے‘ کا حصہ ہونا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے کانفرنس میں کہا کہ ’دو ریاستی حل پہلے سے کہیں زیادہ دور ہو گیا ہے۔‘ انہوں نے اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے پر ’بتدریج قبضے‘ اور ’غزہ کی مکمل تباہی‘ کی مذمت کی۔

اے ایف پی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، اقوام متحدہ کے 193 رکن ملکوں میں سے کم از کم 142، جن میں فرانس بھی شامل ہے، اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں جس کا 1988 میں جلا وطن فلسطینی قیادت نے قائم کرنے کا اعلان کیا۔

کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک دو ریاستی حل کے تصور کی حمایت کرتے آ رہے ہیں، جس کے تحت اسرائیل اور ایک فلسطینی ریاست ایک ساتھ وجود قائم رکھیں۔

لیکن غزہ میں 21 ماہ سے زیادہ جاری جنگ، مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع اور اسرائیلی حکام کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کو ضم کرنے کے اعلانات کے بعد خدشہ ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام جغرافیائی طور پر ناممکن ہو جائے گا۔

فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس ہفتے کی کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ’فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان کبھی اتنا خطرے میں نہیں رہا اور کبھی اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں رہی۔‘

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حالات پیدا کرنے کے علاوہ، کانفرنس میں تین دیگر امور پر بھی توجہ دی جائے گی۔

فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات، حماس کو غیر مسلح کرنا اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا۔

تاہم، ایک فرانسیسی سفارتی ذریعے کے مطابق کانفرنس میں تعلقات کی بحالی کے کسی نئے معاہدے کا اعلان متوقع نہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کہا کہ ’ہمیں اسرائیل کے یک طرفہ اقدامات روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جو دو ریاستی حل کو نقصان پہنچاتے ہیں، جن میں بستیاں، زمین کی ضبطی، مقدس مقامات پر تجاوزات اور مقبوضہ مغربی کنارے و غزہ کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔‘

اس کانفرنس میں اسرائیل اور امریکہ شریک نہیں ہیں جب کہ غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

کانفرنس کا عنوان ’فلسطین کے مسئلے کے پُرامن اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے اعلیٰ سطح بین الاقوامی کانفرنس‘ ہے، جو 28 تا 30 جولائی نیویارک میں جاری رہے گی۔

اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق کانفرنس سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’مملکت ہر اس کوشش کی مکمل حمایت کرتی ہے جو خطے اور دنیا میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے کی جا رہی ہو۔

’سعودی عرب مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ دو ریاستی حل کا نفاذ سیاسی، سفارتی اور عالمی کوششوں کے ذریعے ناگزیر ہے کیونکہ یہی وہ حکمت عملی ہے جو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بناتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسی نظریے کے تحت سعودی عرب نے فرانس کے ساتھ مل کر اس بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت سنبھالی ہے تاکہ فلسطینی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔

کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’میں نیو یارک میں منعقدہ اس اعلیٰ سطح بین الاقوامی کانفرنس میں فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ، اصولی اور مستقل مؤقف کا اعادہ کروں گا۔‘

ایکس پر اپنے ایک بیان میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ کانفرنس فلسطینی ریاست کے قیام، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے، غزہ کے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات فراہم کرے گی۔

’پاکستان ان تمام کوششوں میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔‘

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب غزہ میں انسانی صورت حال بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔





Source link

By uttu

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *