Mon. Jul 21st, 2025

اکیلے رہنا ایک نشہ ہے، احتیاط سے کیجیے

386199 1803353572


اکیلے رہنا ایک نشہ ہے لیکن اتنا ہی خطرناک جتنا کوئی بھی دوسرا نشہ ہو سکتا ہے۔

سوچیں، نوکری کے علاوہ آپ کا سارا وقت اپنا ہے، جب سوئیں، جب جاگیں، جب دل کرے کھائیں، جب دل کرے بھوکے رہیں، جب چاہیں باہر جائیں، جب چاہیں واپس آئیں، نہ آئیں ۔۔۔ فل آزادی، مکمل ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ تین ایسی چیزیں جڑی ہوئی ہیں جو اگر آپ کے بس میں نہیں تو یہ علت آپ نہیں پال سکتے۔

سب سے پہلی چیز تو اپنے دماغ کے ساتھ زندہ رہنا ہے، کیا آپ اپنی سوچوں سے بھاگتے ہیں؟ کیا آپ کو ہر دوسرے گھنٹے کوئی بات کرنے والا چاہیے ہوتا ہے؟

کیا آپ کے پاس اکیلے وقت میں کچھ کرنے کو نہیں ہوتا ۔۔۔ اگر یہ سب ہے تو اکیلا پن آپ کے بس کی بات نہیں، آپ نارمل انسان ہیں اور خدا نہ کرے کہ آپ پر کبھی ایسا وقت پڑے۔

اپنے دماغ، اپنی سوچوں، اپنی ذات کے بوجھ سمیت زندہ رہنا اکیلے رہنے کی پہلی آزمائش ہے۔

دوسری چیز جو اکیلے رہنے کے لیے ضروری ہے اسے احتیاط کہتے ہیں۔ آپ کے پاس ضروری دوائیں، کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان، گھریلو استعمال کی بنیادی چیزیں، سوئی دھاگا، استری، کپڑے دھونے کی بالٹی، گیس کا سلنڈر، توا، چولہا وغیرہ نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ان کا استعمال بھی آنا چاہیے ورنہ کھانے پینے، ہسپتالوں کے پھیروں اور کپڑوں کی دھلائی پہ نہ صرف بندے کا اچھا خاصہ خرچہ ہوتا ہے بلکہ خواہ مخواہ کی چلت پھرت بھی ہوتی ہے۔

تیسری اور سب سے زیادہ ضروری چیز کا نام ہے نوکری، کاروبار یا دن کے آٹھ گھنٹے دوسرے انسانوں کے ساتھ گزارنا۔ یہ بہت بڑا پوائنٹ ہے جو اکیلے رہنے کے شوقین انسان نہیں جانتے۔

جس طرح سفر آپ کو زندہ رہنے کے لیے اچھی یادوں کی آکسیجن فراہم کرتا ہے اسی طرح اکیلے رہنے والے کو وہ آٹھ گھنٹے کئی دن تک مزید تنہائی کے لیے تیار کرتے ہیں ۔۔۔ سمجھ لیجیے وہ اکیلے پن کی چارجنگ ہوتی ہے، جب کوئی شخص 24 گھنٹے اکیلے گزارنے کا اہل ہو جائے اور پھر کئی دن، مہینے اور سال وہ اسی طرح گزار سکے تو جانیے کہ وہ انسانوں کی جون سے باہر ہو گیا، اسے عشق میں ناکامی ہوئی ہے یا ذہنی صحت گڑبڑ ہے، تیسری صرف ایک صورت ہو سکتی ہے، دنیا کے لیے اس کا وجود اور عدم برابر ہو گیا۔

تو اب تک اکیلے رہنے کا جو نشہ ہم نے دریافت کیا اس میں ایکسیپشن یہ ہے کہ آٹھ گھنٹے کم از کم ہفتے کے تین چار دن باقی دنیا کے ساتھ گزارنا ضروری ہیں۔

یہ سہولت موجود ہے تو موج ہے، جب اس سے بھی انسان چلا جائے تو وہ معاملہ اسی طرح ہوتا ہے جیسے کسی بھی نشے کی زیادتی۔

انسانی تاریخ میں ایک تنہا موت ایسی بھی ہے جس کا پتہ 42 سال بعد چلا، 2008 میں ۔۔۔ ایک خاموش اپارٹمنٹ، کھڑکی پر موجود پردہ آدھی صدی سے ہل رہا ہے مگر کمرے میں اتنے ہی وقت سے خود وقت ہی رکا ہوا ہے۔

چائے کا ایک کپ موجود ہے، سامنے ٹی وی، کرسی ہے اور اس پہ ایک وجود جو 1966 کے بعد ہمیشہ ساکت رہا۔

 ہیڈویگا گولک کروشیا کی رہنے والی ایک نرس تھیں اور آخری مرتبہ انہیں 1966 میں دیکھا گیا۔

2008 میں ایک خط ان اپارٹمنٹس کے رہنے والوں کو بہ سبب مرمت جاری کیا گیا جس کا جواب گولگ کی طرف سے یاددہانیوں کے باوجود نہ آیا، تب پولیس نے دروازہ توڑا تو اندر یہ منظر تھا۔

ڈاکٹروں کے مطابق سردیوں میں فوت ہونے کی وجہ سے ان کی ڈیڈ باڈی منجمد رہی اور کھڑکی مستقل کھلی رہنے کی وجہ سے بعد کے تمام مراحل بھی انتہائی آہستگی سے ہوئے اور آس پاس کسی کو خبر نہ ہو سکی۔

یہاں ہم یہ سوال تو اٹھا سکتے ہیں کہ پاس پڑوس والوں کو خبر کیوں نہیں ہوئی، ہم انسانی قدروں کا رونا بھی رو سکتے ہیں کہ 42 سال تک کوئی انسان کیسے غائب رہ سکتا ہے، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گولک کا عدم اور وجود برابر کر دیا گیا تھا لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پہ میرا خیال ہے سوچنا ضرور چاہیے۔

کیا مرنے والی کو خود اپنی تنہائی پسند نہیں تھی؟ کیا وہ تنہائی کے اس نشے کا شکار تو نہیں تھیں جس میں بندہ خود اپنے وجود، اپنی سوچوں کے ساتھ مکمل سیٹ ہو جاتا ہے؟

وہی کیس کہ جب وہ ہفتوں اور مہینوں کسی سے ملنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔۔۔ اور اگر ایسا تھا تو پھر ہیڈویگا گولک کو آئیڈیل موت نہیں آئی؟ ان کی پسندیدہ موت؟

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غالب کہہ جائیں تو شاعری آفاقی ہو جاتی ہے اور اگر واقعی کچھ ایسا ہو جائے تو ہم سوال اٹھانے لگتے ہیں سو طرح کے۔

قسمت ہر انسان کو گنے چنے آپشن دیتی ہے، کوئی بیچ بازار اکیلا ہے کوئی پہاڑ کی چوٹی پہ بھی تنہا نہیں ۔۔۔ جو جہاں ہے اس کی چوائس پر تنقید مت کیجیے، اس کی آزادی پر سوال مت اٹھائیے، بہت پریشانی ہے تو آس پاس کے اکیلوں کو پوچھ لیجے جا کر ۔۔۔ پھر کسی کا مرنا جینا خدا کی مرضی ہے، بیس لوگوں کے ساتھ رہنے والا بھی ہوٹل کی اکیلی رات گزارتے ہوئے مر سکتا ہے اور ہماری وہ نرس ہیڈویگا گولک بھی فلیٹ آنے سے پہلے آخری دن ہسپتال کی نوکری پہ ہی مر سکتی تھیں۔

باقی جب تک موت آتی نہیں تب تک یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ اپنوں کے ساتھ موت اچھی آتی ہے یا اکیلے میں ۔۔۔ خدا بہتر جانتا ہے۔

دنیا ہے، یہی ہوتا ہے، تنہائی سمیت ہر نشہ اعتدال سے کیجیے، زندگی گزاریں، موت کس نے کہاں دیکھنی ہے وہ قسمت پہ چھوڑ دیں۔





Source link

By uttu

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *