ایران اسرائیل جنگ پاکستان تک بڑھ سکتی ہے؟

uttu
6 Min Read


تنازعات اور جنگیں ایک ’نیو نارمل‘ بنتے جا رہے ہیں۔ دُنیا لفظی لڑائی سے ہاتھا پائی تک جا پہنچی ہے، جنگ کی نوعیت اور انداز بھی بدل گیا ہے۔ تقاضے اور حاجات نے بھی نیا رُخ اختیار کر لیا ہے۔ طاقت ور اختیار کے سب ہتھیار استعمال کرنے کے درپے ہے، زمانہ قدیم کی ریاستی خواہشات نے یک دم زمانہ جدید میں پاؤں پھیلا لیا ہے۔

تسلط کے خواب تعبیر کی جنگ بن چکے ہیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا، ایک طویل عرصے کے بعد دُنیا ہل گئی۔ اس جنگ سے قبل اسرائیل کی خطے میں غیر معمولی چھیڑ چھاڑ ہمیشہ جاری رہی۔ کبھی لبنان پر چڑھائی، کبھی شام سے مستی اور ایران مستقل ریڈار پر رہا۔

دو برس سے فلسطین پر تسلط کی کوششیں اور بالآخر غزہ پر ظلم و ستم نے انسانیت سوز کہانیوں کو جنم دیا۔ مسلم اُمّہ ہو یا سپر طاقتیں سب خاموش، اسرائیل کو گویا لائسنس مل گیا کہ خطے میں اپنا مسلح اثر و رسوخ بڑھاتا چلا جائے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دُنیا کی خاموشی سے اسرائیل ک شہ مل گئی اور یہ کبھی خارج از امکان نہیں رہا کہ اسرائیل ایران پر حملہ نہ کرے۔ یہاں تک کہ حالیہ پاکستان انڈیا جنگ میں بھی اسرائیل کی شمولیت اور مداخلت کے شواہد موجود ہیں جس کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے ہم چند صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔

ایران پر حملے سے قبل حزب اللہ کی اہم قیادت کا ’شکار‘، حسن نصراللہ کی شہادت اور پھر اسماعیل ہانیہ کی ایران میں شہادت، گذشتہ برس اپریل میں قدس فوج کے رہنما کا قتل، حالیہ حملوں میں چیف آف سٹاف سمیت اہم سائنس دانوں کا مارا جانا ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔

جس انداز میں انتہائی مہارت کے ساتھ ان اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کس قدر ظالم نشانہ باز ہے۔

حالیہ کارروائیوں میں اسرائیل امریکہ گٹھ جوڑ مختلف حوالوں سے اہم رہا ہے۔ اسرائیل امریکہ کو استعمال کر رہا ہے یا امریکہ بذات خود استعمال ہو رہا ہے یہ جاننا بے حد اہم ہے۔

اُس وقت جب امریکہ اور ایران مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری توانائی منصوبے کو روکنے کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت اسرائیل کے ہاتھوں حملے کی دھمکی اسرائیل کے لیے ایک قدم آگے بڑھنے کا اشارہ تھا۔

حملوں کے دوران صدر ٹرمپ کی خاموشی ’نیم رضامندی‘ ہی تھی یہاں تک کہ ٹرمپ نے پاکستان انڈیا انداز میں جنگ بندی معاہدے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ اب اسرائیل امریکہ کی بات مانے یا نہیں دونوں صورتوں میں امریکہ کو کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کا بیان محض بیان برائے بیان ہی ہے۔

اسرائیل کے اہداف کچھ اور ہیں۔ ظاہر ہے اسرائیل ایران کو یورینیم کی افزودگی سے ہر صورت روکنا چاہتا ہے یا شاید انہیں اس بات کی یقین دہانی ہے کہ ایران یورینیم افزودگی کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایران جنگ کی اس صورت حال میں ایٹمی تجربات کر سکتا ہے؟ اور کی ایران کو روکنے کے لیے امریکہ جنگ میں کود سکتا ہے؟ کیا یہ جنگ وسیع ہو سکتی ہے اور خطے میں اور کون اس کا شکار ہو سکتا ہے؟ خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کی صورت میں پاکستان پر بھی بادل منڈلا سکتے ہیں؟

حالیہ پاکستان انڈیا جنگ میں اسرائیل کی شمولیت نے بہت سوالات کو جنم دیا ہے۔ اسرائیل کے تسلط پسندانہ ڈیزائنز اور نتن یاہو کی کئی برس قبل خواہش کی تکمیل کو کسی طور درگزر نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا انڈیا ایک بار پھر اس گٹھ جوڑ میں اسرائیل کا ساتھی بن کر پاکستان پر چڑھائی کر سکتا ہے؟

انڈیا کی جانب سے اسرائیل انداز کے پاکستان پر حملے کا خطرہ بہر حال موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل انڈین وزیر خارجہ کے صاحبزادے دھرووا جے شنکر جو ایک امریکی تھنک ٹینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں نے اپنی ایک تحریر میں پاکستان انڈیا جنگ کو اسرائیل، ایران، آذربائیجان، آرمینیا جنگ کے انداز سے جوڑا۔

اُن کے نزدیک وسیع پیمانے پر جنگ کی بجائے مختصر اور ماہرانہ انداز میں فقط اہداف کو نشانہ بنانا بہتر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان پر اسرائیلی مدد سے انڈیا کے حملوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

کیا اسرائیل ہو یا انڈیا۔۔۔ تسلط کی خواہش اور حربے ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ انڈیا کو پہلے مرحلے پہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم مستقبل میں یہ ’گٹھ جوڑ‘ خارج از امکان نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔





Source link

Share This Article
Leave a Comment