’جس سے سب ڈرتے ہیں، وہی میرا دوست ہے۔‘ یہ کہنا ہے 21 سالہ سفیر احمد کا، جنہوں نے 13 برس کی عمر میں سانپوں سے دوستی کا سفر شروع کیا اور اب سانپوں کی آگاہی، تحفظ اور ریسکیو کے مشن پر ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سفیر احمد پیشے کے لحاظ سے پیسٹ کنٹرول سے وابستہ ہیں۔ کام کے دوران جب مزدور سانپ دیکھ کر بھاگ جاتے یا انہیں مار دیتے تو سفیر نے ان پر تحقیق شروع کی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ سانپ ماحولیاتی نظام کا اہم حصہ ہیں، جو چوہوں اور دوسرے نقصان دہ جانوروں کی افزائش کو کنٹرول کر کے قدرتی توازن برقرار رکھتے ہیں۔‘
سفیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں موجود تقریباً 70 فیصد سانپ زہریلے نہیں ہوتے، مگر لوگ لاعلمی میں انہیں مار دیتے ہیں۔ ’کوبرا، کریٹ اور وائپر جیسی چند اقسام ہی زہریلی ہیں، باقی سانپ بے ضرر ہوتے ہیں۔ کئی سانپ تو انسانوں کے پھیلائے گئے پلاسٹک کی وجہ سے زخمی ہو کر میرے پاس آتے ہیں۔‘
اس وقت ان کے پاس امریکہ سے درآمد شدہ ایک غیر زہریلا بال پائتھن موجود ہے، جو مکمل قانونی ہے۔ وہ انڈین راک پائتھن اور سنو لیپرڈ گیکو جیسے دیگر نایاب جانور بھی رکھتے ہیں، جن کی دیکھ بھال اور علاج وہ خود کرتے ہیں اور بعدازاں محکمہ وائلڈ لائف کے تعاون سے جنگل میں چھوڑ دیتے ہیں۔
سفیر نے بتایا: ’سانپ پالنا سستا شوق نہیں، کچھ سانپ ہر دو دن میں ایک چوہا کھاتے ہیں جو کم از کم 500 روپے کا ہوتا ہے۔ سردیوں میں انہیں خصوصی درجہ حرارت اور توجہ دینا پڑتی ہے کیونکہ وہ ہائبرنیشن میں چلے جاتے ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاندانی ردعمل کے حوالے سے سفیر نے مسکراتے ہوئے کہا: ’جب والدہ نے میرے ہاتھ میں پہلا سانپ دیکھا تو مجھے گھر سے نکال دیا۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ بھی میرا ساتھ دینے لگیں، اور آج میری بہن بھی ان جانوروں کی دیکھ بھال میں میری مدد کرتی ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اگر ہر فرد کو یہ سکھا دیا جائے کہ کون سا سانپ زہریلا ہے اور کون سا نہیں، تو کئی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ ’اکثر لوگ سانپ کے کاٹے سے نہیں، بلکہ خوف سے ہارٹ اٹیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شعور پھیلانا ضروری ہے۔‘
پاکستان میں سانپوں کی 60 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے صرف سات سے آٹھ زہریلی ہیں۔ سفیر احمد کی کوشش صرف ایک ذاتی شوق نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ کی ایک خاموش مہم ہے، جو زہر نہیں، شعور پھیلانے کے لیے جاری ہے۔