Sat. Aug 2nd, 2025

حکومت کی بلوچستان میں مقیم افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی نئی ہدایت

386697 1514467658


پاکستانی حکام کے مطابق جمعے کو ایک بار پھر بلوچستان میں مقیم افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے، جس کے بعد ہزاروں افراد سرحد کی جانب روانہ ہو گئے۔

گذشتہ کئی دہائیوں میں مسلسل ہونے والی جنگ کے سبب لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے جب کہ طالبان کی 2021 میں دوبارہ اقتدار میں واپسی کے بعد بھی مزید لاکھوں افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا۔

پہلی بار افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کی مہم 2023 میں شروع ہوئی، جسے اپریل میں پھر سے تیز کر دیا گیا۔ اس دوران پاکستانی حکومت نے لاکھوں افغان باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیے اور تنبیہ کی کہ جو افغان شہری واپس نہیں جائیں گے، انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اعلیٰ سرکاری عہدےدار مہر اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’محکمہ داخلہ نے ہمیں ہدایات جاری کی ہیں کہ افغان شہریوں کو احترام کے ساتھ اور منظم طریقے سے واپس بھیجنے کی نئی مہم شروع کی جائے۔‘

صوبہ بلوچستان افغانستان کی سرحد سے متصل ہے اور دونوں علاقوں کے درمیان تاریخی اور ثقافتی روابط بھی ہیں۔

جمعے کو چمن سرحد پر چار سے پانچ ہزار افراد واپس افغانستان جانے کے انتظار میں موجود تھے۔ چمن کے اعلیٰ سرکاری عہدےدار حبیب بنگلزئی نے اس کی تصدیق کی۔

سرحد کی دوسری جانب افغانستان کے صوبہ قندھار کے سربراہ برائے پناہ گزین رجسٹریشن عبداللطیف حکیمی نے بتایا کہ انہیں بھی جمعے کو پاکستان سے واپس آنے والے افغان باشندوں کی تعداد میں اضافے کی اطلاع ملی۔

2023  سے اب تک 10 لاکھ سے زائد افغان پاکستان چھوڑ گئے، جن میں سے دو لاکھ سے زیادہ اپریل سے اب تک واپس جا چکے ہیں۔

اپریل میں شروع ہونے والی مہم کا ہدف تقریباً آٹھ لاکھ افغان باشندے تھے، جن کے پاس عارضی رہائشی اجازت نامے تھے۔ ان میں سے کچھ تو پاکستان میں ہی پیدا ہوئے یا کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہیں۔

پاکستان کے بعض حلقے سکیورٹی اور معاشی مسائل میں اضافے کے باعث افغان باشندوں کی بڑی تعداد کی میزبانی سے تنگ آ چکے ہیں، اس لیے اس ملک بدری کی مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے نبرد آزما ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کی مسلح کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ شمال مغربی علاقوں میں پاکستانی طالبان اور ان سے منسلک عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔

گذشتہ برس پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں گذشتہ 10 برس کی سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔ حکومت اکثر ان حملوں میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔

ادھر ایران بھی بڑے پیمانے پر افغان باشندوں کو ملک بدر کر رہا ہے اور وہاں سے اب تک 15 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

افغانستان ایک طویل مدتی انسانی بحران سے دوچار ہے اور طالبان کی حکومت ملک میں اسلامی قانون کی انتہائی سخت تشریح نافذ کیے ہوئے ہے، جس کے تحت زیادہ تر خواتین کو تعلیم اور ملازمت سے روک دیا گیا ہے۔

دوسری جانب افغانستان کی وزارت برائے امور تارکین وطن کے حکام نے سرکاری میڈیا سینٹر میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ 2024 میں پناہ گزینوں، واپس آنے والوں اور ملک کے اندر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے لیے متعدد اہم خدمات انجام دی گئیں۔

نائب وزیر برائے امور تارکین وطن شیخ کلیم الرحمٰن فانی کے مطابق پاکستان، ایران اور ترکی سمیت مختلف ممالک سے گذشتہ سال کے دوران 20 لاکھ سے زائد تارکین وطن واپس آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’9951 افغان قیدی ایران اور پاکستان کی جیلوں سے رہائی کے بعد وطن واپس لائے گئے۔ پاکستان میں موجود تقریباً 14 لاکھ پناہ گزینوں کے اقامتی کارڈز میں توسیع کی گئی اور 600  مہاجرین کو حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب روانہ کیا گیا۔‘

وزارت کے حکام کے مطابق، 125 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کے نتیجے میں واپس آنے والوں اور بے گھر افراد کے لیے 7.8 کروڑ  ڈالر سے زائد کی امداد حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ 34 ہزار افراد کے لیے پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام شروع کیے گئے اور 8000 خاندانوں کو کاروبار کے آغاز اور پناہ کے لیے نقد امداد فراہم کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ شراکت دار تنظیموں کی مدد سے 42 ہزار افراد کو معاشی مواقع فراہم کیے گئے جبکہ انسانی امداد کے طور پر 2.7 ارب افغانی مالیت کی خوراک، کپڑے، نقدی اور دیگر ضروری اشیاء 42 ہزار خاندانوں کو دی گئیں۔ ترکی سے واپس آنے والوں کے لیے 260 ملین افغانی کی نقد امداد مختص کی گئی۔





Source link

By uttu

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *