سندھ حکومت کے مالی سال 2025-26کا بجٹ پیش کردیا گیا، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران صوبے کا بجٹ پیش کیا، صوبائی بجٹ میں 38ارب 45کروڑ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے جب کہ صوبائی بجٹ کا کل تخمینہ 34کھرب 50ارب روپے ہے۔
سندھ کے بجٹ میں گریڈ ایک سے 22تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس شامل کرنے جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں7 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ سندھ کے محاصل کا تخمینہ 676ارب روپے لگایا گیاہے جس میں 288ارب روپے کے صوبائی محصولات (علاوہ صوبائی جی ایس ٹی) اور 388ارب روپے کے صوبائی سروس ٹیکس اور زرعی ٹیکس شامل ہیں۔
صوبے کو آیندہ مالی سال نان ٹیکس ذرایع سے 52ارب 55 کروڑ روپے حاصل ہوں گے، سندھ کو آیندہ مالی سال وفاق سے مجموعی منتقلیوں کی مد میں 20 کھرب 95ارب روپے کی وصولیاں ہوں گی، سندھ حکومت آیندہ سال بجٹ اخراجات پورے کرنے کے لیے 33ارب 18 کروڑ روپے کا قرض لے گی، بجٹ میں 475نئی ترقیاتی اسکیموں کو شامل کیا گیا۔
سندھ حکومت نے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لیے پیسے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میںپونے پانچ سو کے قریب نئی ترقیاتی اسکیمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آیندہ مالی سال کے دوران سندھ میں ترقیاتی سرگرمیاں تیز ہوں گی جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور روپے کی گردش میں بھی اضافہ ہو گا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں وفاقی بجٹ کو سامنے رکھ کر اضافہ کیا گیا ہے۔
سندھ کو وفاق سے بھی تقریباً اکیس ارب روپے کی وصولیاں ہوں گی۔ یوں دیکھا جائے تو سندھ کے پاس خاصا ریونیو ہو گا۔ اسی لیے سندھ میں نئی ترقیاتی اسکیموں کو شامل کیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ وہی آتا ہے کہ شفاف نظام حکومت کا ہونا۔ اگر بجٹ میں بیان کیے گئے اہداف اور ان کے لیے مختص کی گئی رقوم پوری طرح خرچ ہو جائیں اور اس میں کسی قسم کی کرپشن نہ ہو تو اس کے بہت زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ کام سندھ کی حکومت اور بیوروکریسی کا ہے کہ وہ تندہی کے ساتھ آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔
سندھ کے صوبائی بجٹ میں پانچ طرح کے ٹیکسز کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی، خدمات پر سیلز ٹیکس کی شرح 10فیصد سے کم کرکے 8 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی، کمرشل گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی سمیت انشورنس موٹیشن، سیلز سرٹیفکیٹ، ہیئر شپ سرٹیفکیٹس سمیت انشورنس اسٹامپ پر ڈیوٹی میں بھی کمی کی تجویز دی گئی، آیندہ مالی سال تعلیم کے شعبے کا کل بجٹ 523.73ارب روپے تجویز کیا گیا جو گزشتہ سال کے 458.2ارب روپے کے بجٹ سے 12.4فیصد زائد ہے آیندہ مالی سال اسکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے 4400 آسامیاں رکھی گئی ہیں، صحت کے شعبے کا بجٹ 326.5ارب روپے تجویز کیا گیا۔
میڈیکل ایجوکیشن کے لیے 18.2ارب روپے مختص کیے ہیں ہیلتھ سیکٹر میں آیندہ مالی سال صوبے میں 146.9ارب روپے کی گرانٹ کی بھی تجویز کا حصہ ہے۔ سندھ میں امن و امان اور سیکیورٹی پر آیندہ مالی سال کے بجٹ میں 179.7ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آیندہ مالی سال کے بجٹ میں سندھ کے دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے گھروں میں آف گرڈ سولر سسٹم کے لیے بلاک مخصوص کیا گیا ہے گھروں پر مبنی سولر سسٹم کے لیے بجٹ میں 25ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
سندھ کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ وسائل کے اعتبار سے شاید پورے پاکستان کا سب سے باوسائل صوبہ ہے۔ یہاں سے وافر مقدار میں گیس نکلتی ہے۔ تیل اچھی خاصی تعداد میں نکلتا ہے جب کہ کوئلے کے ذخائر عالمی رینکنگ میں آتے ہیں۔ کراچی پورٹ سٹی ہونے کے ناطے بہت زیادہ ریونیو کماتا ہے۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں نئی بندرگاہیں تعمیر کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اگر سندھ پر پوری توجہ دی جائے تو آیندہ چند برس میں سندھ پاکستان کا سب سے امیر اور ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے۔
خیبرپختونوا حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے دو ہزار ایک سو انیس (2119) ارب روپے کا سرپلس بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا ہے، ترقیاتی اخراجات کے لیے پانچ سو سینتالیس (547)ارب جب کہ غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے ایک ہزار چار سو پندرہ (1415) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ 157 ارب روپے سرپلس بجٹ ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کا اعلان کیا ہے،سرکاری ملازمین کے لیے ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے، مزدور کی کم سے کم اجرت 40 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم نے بجٹ پیش کیا، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور بھی ایوان میں موجود تھے۔
اگر ترقیاتی بجٹ کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ بہتر صورت حال کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ صوبے کے پاس سرپلس میں بھی ایک سو ستاون ارب روپے موجود ہیں۔ اصل مسئلہ یہ کہ ترقیاتی رقم کا ایماندارانہ اور شفاف میکنزم کے تحت خرچ ہے۔ اگر یہ رقم ایمانداری کے ساتھ خرچ ہو تو بہت سے ترقیاتی کام مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح کم ازکم اجرت کا معاملہ بھی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت اپنے صوبے میں اگر کم ازکم اجرت چالیس ہزار روپے ماہانہ پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے مزدوروں کو خاصا ریلیف ملے گا۔
صوبے کا غیرترقیاتی بجٹ ایک ہزار چار سو پندرہ ارب روپے ہے۔ اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، مراعات اور دیگر الاؤنسز شامل ہوں گے۔ صوبے کے وزیراعلیٰ اور وزراء کی اولین ذمے داری یہ ہے کہ وہ صوبائی بیوروکریسی سے قانون کے مطابق پورا کام لیں۔ کیونکہ عوام کے ٹیکسوں سے کمائے ہوئے پیسے سرکاری ملازمین کو ادا کیے جاتے ہیں جب کہ وزیراعلیٰ، وزراء اور معاونین اور ارکان صوبائی اسمبلی وغیرہ کو جو تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں، وہ بھی صوبے کے عوام اپنی کمائی میں سے دیے گئے ٹیکسوں سے ادا کرتے ہیں۔ اس لیے حکومت اور صوبائی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی آئینی اور قانونی ذمے داریاں ایمانداری اور تندہی سے ادا کریں۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے اور حکومتی ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق صوبائی سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 195 ارب، ضلعی سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 39 ارب، ضم اضلاع کے لیے 39.60 ارب، ضم اضلاع کے اے آئی پی کے لیے 92.740 ارب، بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 177 ارب اور وفاقی حکومت کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 3.47 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے 1415ارب روپے رکھے گئے ہیں، تعلیمی بجٹ کو 327ارب سے بڑھاکر363ارب روپے کردیا گیا ہے جو جاری مالی سال سے 11 فیصد زائد ہے ۔
صوبے میں شرح خواندگی کے اضافے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی نافذکر دی گئی ہے جس کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، محکمہ صحت کا بجٹ 232 ارب سے بڑھا کر 276 ارب کر دیا گیا ہے، بندوبستی اضلاع میں صحت کارڈ پلس کا بجٹ 28 ارب سے 35 ارب روپے کر دیا گیا ہے، ضم اضلاع کے لیے صحت سہولت پروگرام کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پولیس کا بجٹ 124 ارب سے بڑھا کر 128 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے لیے اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر خریداری کے لیے 13 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سیف سٹی پروجیکٹ پشاور کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ بھی بجٹ کا حصہ ہے،خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس میں سپاہی سے انسپکٹر تک عملہ کی تنخواہوں کو پنجاب پولیس کے مساوی کرنے اور پولیس شہداء پیکیج بڑھانے کا منصوبہ بجٹ میں شامل کردیا ہے۔
صوبے کا بجٹ بہتر نظر آتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اور وسائل کے اندر رہ کر جو کچھ کیا جاسکتا تھا، وہ صوبائی حکومت نے کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے جتنے وسائل ہیں، اتنے پورے کے پورے خرچ ہونے چاہئیں۔ اگر صوبائی حکومت اس بجٹ کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔