اقوام متحدہ کے مذاکراتی عمل کے سربراہ نے جنیوا میں جمع ہونے والے 180 ممالک کے نمائندوں سے کہا ہے کہ وہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کا حل تلاش کریں اور انسانیت کے لیے خطرناک اس کچرے کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی معاہدہ طے کریں۔
ایکواڈور کے سفارتکار لوئیس وایاس والدیویسو نے مذاکرات کے 10 روزہ عمل کے آغاز پر کہا کہ ’ہم ایک عالمی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
’پلاسٹک کی آلودگی ہمارے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہے، سمندروں اور دریاؤں کو آلودہ کر رہی ہے، حیاتیاتی تنوع کے لیے خطرہ ہے، انسانی صحت کو متاثر کر رہی ہے اور سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر غیر منصفانہ اثر ڈال رہی ہے۔ یہ ایک فوری مسئلہ ہے، شواہد واضح ہیں اور ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔‘
تین سالہ مذاکرات کا عمل گذشتہ دسمبر جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا تھا جب تیل پیدا کرنے والے ممالک نے معاہدے پر اتفاق کو روک دیا تھا۔
نئے مذاکرات کے مرکزی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس بار بھی آسان عمل کی توقع نہیں رکھتے، لیکن وہ پرامید ہیں کہ معاہدہ اب بھی ممکن ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بوسان کے بعد سے سفارتی کوششیں جاری رہی ہیں۔ مختلف خطوں اور مفادات کے حامل گروہوں کے درمیان بات چیت سے ایک نئی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ جن ممالک سے میری بات ہوئی ہے، ان میں سے اکثر نے کہا ہے کہ وہ جنیوا ایک معاہدہ کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔‘
انگر اینڈرسن نے کہا کہ یہ یہ آسان نہیں ہو گا، سیدھا سادہ عمل نہیں ہو گا لیکن کیا ایک معاہدے کا راستہ بالکل موجود ہے۔
انسانی جسم تک مائیکرو پلاسٹک کی رسائی
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پلاسٹک کی آلودگی اس قدر پھیل چکی ہے کہ مائیکرو پلاسٹک دنیا کی بلند ترین چوٹیوں، گہرے ترین سمندری گڑھوں، اور انسانی جسم کے تقریباً ہر حصے میں پائے جا چکے ہیں۔
سنہ 2022 میں دنیا کے ممالک نے طے کیا تھا کہ وہ 2024 کے اختتام تک اس بحران سے نمٹنے کا راستہ نکالیں گے، تاہم پلاسٹک کی آلودگی (خصوصاً سمندروں میں) کے خلاف قانونی طور پر پابند معاہدے پر حتمی مذاکرات بوسان میں ناکام ہو گئے تھے۔
کچھ ممالک نے پیداوار محدود کرنے اور زہریلے کیمیکل ختم کرنے پر زور دیا، جبکہ زیادہ تر تیل پیدا کرنے والے ممالک نے صرف فضلے کے انتظام پر توجہ مرکوز رکھنے کا مطالبہ کیا۔
والدیویسو کا کہنا ہے کہ ’ہمارے راستے اور مؤقف مختلف ہو سکتے ہیں، مگر منزل ایک ہے۔ ہم سب یہاں اس مشترکہ مقصد کے لیے جمع ہیں: ایک ایسا دنیا جہاں پلاسٹک کی آلودگی نہ ہو۔‘
’پلاسٹک سے پاک مستقبل‘ کا مطالبہ
600 سے زائد غیر سرکاری تنظیمیں بھی جنیوا میں موجود ہیں۔ ان تنظیموں کو ایسے اہم نکات پر ہونے والی بات چیت تک رسائی حاصل ہے جیسے مخصوص کیمیکل پر پابندی اور پلاسٹک کی پیداوار پر حد مقرر کرنا۔
گرین پیس کے وفد کے سربراہ گراہم فوربز نے اے ایف پی کو بتایا ’اگر ہم پلاسٹک کی آلودگی کے بحران کو حل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے پلاسٹک کی بے تحاشہ پیداوار روکنا ہو گی۔ ہم ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو پلاسٹک کی پیداوار میں کٹوتی کرے، زہریلے کیمیکل کا خاتمہ کرے، اور ایسے مالی وسائل فراہم کرے جو ہمیں ایک پلاسٹک اور فوسل فیول سے پاک مستقبل کی طرف منتقل ہونے میں مدد دیں۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’نامیاتی ایندھن کی صنعت پوری طاقت سے یہاں موجود ہے۔ ہم چند ممالک کو انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
پلاسٹک: پیداوار، تلفی اور نقصان
دنیا بھر میں ہر سال 40 کروڑ ٹن سے زائد پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے، جس میں سے آدھا ایک مرتبہ استعمال ہونے والی اشیاء کے لیے ہوتا ہے۔
پلاسٹک فضلے کا صرف 15 فیصد جمع کیا جاتا ہے، اور محض نو فیصد ہی واقعی ری سائیکل ہوتا ہے۔
تقریباً 46 فیصد کچرے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے، 17 فیصد جلا دیا جاتا ہے، جبکہ 22 فیصد ناقص طریقے سے سنبھالا جاتا ہے اور اردگرد بکھر جاتا ہے۔
برطانوی طبی جریدے دی لینسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی آلودگی صحت کے لیے ایک ’سنگین، بڑھتا ہوا اور کم تسلیم شدہ خطرہ‘ ہے، جو دنیا کو ہر سال کم از کم 15 کھرب ڈالر کے اقتصادی نقصانات پہنچا رہی ہے۔
اس نئی تحقیق نے پلاسٹک کے اثرات کو فضائی آلودگی اور سیسے سے تشبیہ دی، اور کہا کہ اس کا حل قانون سازی اور پالیسی سازی سے ممکن ہے۔
علامتی مجسمہ: ’مفکر کا بوجھ‘
اقوام متحدہ کے باہر فرانسیسی مجسمہ ساز آگست روڈین کے مشہور مجسمے ’دا تھنکر‘ کا ایک نقل پلاسٹک کے بڑھتے ڈھیر میں آہستہ آہستہ دبایا جا رہا ہے، تاکہ اس بحران کی شدت کو اجاگر کیا جا سکے۔
یہ فن پارہ (دا تھنکرز برڈن) کے نام سے کینیڈین آرٹسٹ اور سماجی کارکن بینجمن وان وونگ نے تخلیق کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اگر ہم صحت کا تحفظ چاہتے ہیں، تو ہمیں اُن زہریلے کیمیکلز کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا جو ہمارے ماحول میں شامل ہو رہے ہیں۔‘
تاہم امریکن کیمسٹری کونسل کے ترجمان میتھیو کاسٹنر نے کہا کہ ’پلاسٹک کی صنعت اور اس کی مصنوعات عوامی صحت کے لیے نہایت اہم ہیں، خاص طور پر طبی آلات، سرجیکل ماسک، بچوں کی حفاظت کی نشستیں، ہیلمٹ، اور صاف پانی کی فراہمی کے پائپوں کے لیے۔‘