نہ کوئی چیخ، نہ کوئی آہ و بکا، وہ خاموشی سے چلتی ہوئی اس جگہ پہنچی جو اس کے قتل ہونے کی مقررہ جگہ تھی اور تیز رفتاری سے چلنے والی گولیاں پل بھر میں اس کی زندگی کا خاتمہ کر گئیں۔ پلک جھپکتے ہی اس کا ساتھی بھی اسی انجام کو پہنچا۔ ان کا جرم؟ اپنی مرضی سے جینا۔
عیدالاضحی 2025 کی شام، بلوچ جوڑا احسان سمالانی اور بانو ستک زئی کو بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں اپنے گاؤں واپسی کے لیے ورغلا کر بلایا گیا۔ ایک قبائلی جرگے کے سامنے پیشی کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو نے ان کے آخری لمحات کو دکھایا جو کچھ وقت سوشل میڈیا پر وائرل رہی اور پھر ہمیشہ کی طرح غائب ہو گئی۔
یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا یا انوکھا سانحہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل اور پرتشدد روایت کی ایک کڑی تھی۔ عراق کی دعا خلیل کو 2007 میں سنگسار کیا گیا، ایران کی مونا حیدری کو 2022 میں اپنے شوہر کے ہاتھوں سر قلم کیے جانے کا نشانہ بنی، ایران ہی کی فاطمہ سلطانی کو 2025 میں ان کے والد نے بیوٹی سیلون کے باہر چاقو مار کر قتل کر دیا اور انڈیا کی ٹینس کوچ رادھیکا یادو بھی اسی سال ہریانہ میں اپنے والد کے ہاتھوں گلا گھونٹ کر قتل ہوئیں۔ ان تمام واقعات کا پیغام ایک ہی ہے یعنی دنیا کی بہت سی جگہوں پر ایک خاندان کی ’غیرت‘ آج بھی عورت کی جان سے بڑھ کر ہے۔
’اس نے بے غیرتی کی، اسے مرنا ہی تھا‘، یہ الفاظ یا ان جیسے الفاظ بلوچستان کے پہاڑوں سے لے کر بغداد کی گلیوں تک، صحراؤں سے شہروں تک گونجتے رہتے ہیں لیکن جیسا کہ پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ایک بار پوچھا تھا کہ ’کس غیرت کا نام ہے یہ جو بے غیرتی سے عبارت ہو؟ یہ کون سا شیطانی ضابطہ ہے جو قتل کو نیکی میں ڈھال دیتا ہے؟‘
غیرت کے نام پر قتل کسی بھی مذہب میں جائز نہیں مگر یہ رواج بگڑی ہوئی ثقافتی اقدار اور قبائلی نظاموں کی آڑ میں اب بھی زندہ ہے۔ اس روایت کا وجود اسلام سے پہلے کے عرب، رومن اور جنوبی ایشیائی معاشروں میں بھی پایا جاتا تھا، جہاں عورت کے جسم کو خاندان کی عزت کا پیمانہ سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ عمل ان علاقوں میں زندہ ہے جہاں قبائلی اختیارات ریاستی قوانین پر حاوی ہیں اور مردانگی کا پیمانہ عورت پر کنٹرول ہے۔
پاکستان میں اس عمل کے مختلف نام ہیں: سندھ میں ’کارو کاری‘، بلوچستان میں ’سیا کاری‘، اور پشتون علاقوں میں ’تور تورا‘، یہ سب دراصل وہ الفاظ ہیں جو اخلاقی انحراف کے مبینہ الزام پر قتل کو مہذب انداز میں پیش کرتے ہیں۔
بعض اوقات لڑکیوں کو جھگڑوں کے تصفیے کے لیے زبردستی بیاہ دیا جاتا ہے جو ایک اور قسم کا تشدد ہے جو غیرت اور مصلحت کے پردے میں لپٹا ہوتا ہے۔
عراق میں غیرت کے نام پر قتل کو اکثر قبائلی یا ثقافتی قانون کے تحت درست قرار دیا جاتا ہے۔ اردن میں ماضی میں عدالتوں نے ایسے مقدمات میں نرم سزائیں سنائی ہیں اگرچہ قانون میں ترامیم جیسے تعزیراتی قانون کی دفعہ 98 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر ان پر عمل درآمد مسلسل غیر یقینی کا شکار ہے۔
فلسطینی علاقوں، عراق کے کردستان خطے، ایران، ترکی اور لبنان میں بھی ایسے ہی قانونی اصلاحات کی گئیں، مگر یہ عمل درآمد کی کمی اور سماجی قبولیت کے باعث بے اثر ہیں۔
ایران میں اگر باپ یا دادا اپنے بچے بچیوں یا پوتے پوتیوں کو قتل کر دے تو اس پر قصاص کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ قانون دراصل ایسے قاتلوں کو تقریباً مکمل چھوٹ فراہم کرتا ہے، اور بیٹی کے قتل کو معمولی جرم بنا دیتا ہے۔
پاکستان میں 2016 کے فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم قرار دیا گیا ہے تاکہ خاندان قاتل کو معاف نہ کر سکے۔ لیکن عملی طور پر قانونی سقم اور پولیس پر سماجی دباؤ اس قانون کی افادیت کو محدود کر دیتے ہیں۔
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ہر سال 300 سے زائد غیرت کے نام پر قتل کی اطلاع ملتی ہے جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی کیس خودکشی یا حادثات کے طور پر رپورٹ ہوتے ہیں۔ ایران، عراق، مصر اور اردن میں اکثر اس ظلم کو ’خاندانی تنازع یا ذاتی معاملہ‘ کہہ کر دھندلا دیا جاتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی غلط فہمیاں اس ظلم کو سہارا دیتی ہیں۔ پہلی، اگرچہ اس کی زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں، مگر مرد بھی اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ دوسری، یہ جرائم ’جذبات کی شدت‘ کے نہیں بلکہ سوچے سمجھے اور اکثر خاندانی منظوری سے کیے جاتے ہیں۔ تیسری، کوئی مذہب غیرت کے نام پر قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ چوتھی، یہ صرف دیہی یا غیر تعلیم یافتہ علاقوں کا مسئلہ نہیں، شہروں، تعلیم یافتہ گھروں اور بیرون ملک کمیونٹیوں میں بھی ہوتا ہے۔
اگر ریاست واقعی اس ظلم کا خاتمہ چاہتی ہے تو صرف علامتی قانون سازی کافی نہیں۔ بلکہ اس کے لیے غیرت کے نام پر ہر قتل کو مکمل طور پر ناقابل راضی نامہ جرم قرار دینا ہوگا کیوں کہ قتل پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ گواہوں کو مکمل تحفظ دینا ہوگا۔ عدالتیں اور استغاثہ ہر کیس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھیں، نہ کہ ثقافتی تنازع کے طور پر۔ تعلیم اور شعور لازمی ہے یعنی مذہبی رہنما، قبائلی سردار، اساتذہ اور پولیس واضح اور بار بار ایسے جرائم کی مذمت کریں۔ جرگے جیسی غیر رسمی نظام عدل کو، جو عموماً متبادل تنازعات کے حل کے طور پر چلتی ہے، آئین اور قانون کے خلاف فیصلے کرنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔
سال 2020 میں یو این ویمن کی ایک تحقیق کے مطابق جہاں ریاستی انصاف تک رسائی آسان اور مؤثر ہو، وہاں رپورٹنگ بڑھتی ہے اور غیر رسمی انصاف کی عوامی حمایت کم ہوتی ہے۔
غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں، یہ دراصل ایک ایسی ’بے غیرتی‘ ہے جو نہ صرف مقتول بلکہ پورے معاشرے کو داغ دار کرتی ہے۔ جب تک جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ اس ذہنیت اور ان قانونی ڈھالوں کا خاتمہ نہیں کرتے جو ان جرائم کو ممکن بناتے ہیں، تب تک بیٹے اور بیٹیاں مرتے رہیں گے اور اسے ’روایت‘ قرار دے کر اس پر پردہ ڈالا جاتا رہے گا۔
بشکریہ عرب نیوز
مصنف نے سیاسیات اور عالمی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ وفاقی سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس رہ چکے ہیں۔ ان کا ایکس ہینڈل @KaleemImam ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔