اسلام آباد:
پاکستان میں تمباکو نوشی تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے جس کے تناظر میں اسلام آباد میں سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے دو روزہ مشاورتی اجلاس میں تمباکو کے خلاف جنگ میں نئے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سابق نگران وفاقی وزیر اور صدر پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے اجلاس میں کہا کہ تمباکو کی تشہیر پر مکمل پابندی اور گرافک ہیلتھ وارننگز کے سائز میں اضافہ جیسے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سپارک کے زیرِ اہتمام دو روزہ مشاورتی اجلاس کا موضوع عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی عالمی تمباکو وبا رپورٹ 2025 اور تمباکو کی تشہیر، اشتہار اور سرپرستی (TAPS) پر بہترین عالمی طریقہ کار تھا۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ تمباکو اب بھی ہر سال 80 لاکھ سے زائد انسانی جانیں لے رہا ہے، جو ایچ آئی وی، تپِ دق اور ملیریا سے ہونے والی مجموعی اموات سے زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی کے نقصانات صرف صحت تک محدود نہیں بلکہ معیشت پر بوجھ، پیداواری صلاحیت میں کمی، اور خاندانوں پر مالی و جذباتی دباؤ کا باعث بھی بنتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 70 لاکھ افراد تمباکو استعمال کرتے ہیں، اور ہر سال ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد اموات تمباکو سے وابستہ بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔ تاہم جنوبی ایشیا میں تمباکو کے استعمال میں 70 فیصد سے 37 فیصد تک کمی ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے، اور پاکستان بھی اسی کامیابی کو عوامی آگاہی، مضبوط تعلیمی مہمات، اور عالمی معیار کی پالیسیوں سے حاصل کرسکتا ہے۔
سابق رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ تشویشناک اعداد و شمار کے ساتھ اصل خطرہ نوجوانوں میں تمباکو مصنوعات کی بڑھتی کشش ہے۔ ان کے مطابق دلکش پیکنگ، تقریبات کی سرپرستی، اور آن لائن تشہیر نوجوانوں کو یہ باور کراتی ہے کہ تمباکو محفوظ یا پرکشش ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ قوانین موجود ہونے کے باوجود TAPS کے کئی پہلو اب بھی رائج ہیں، جنہیں قانون سازی اور آگاہی کے ذریعے ختم کرنا ضروری ہے۔
پروگرام منیجر سپارک ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان نے تمباکو کنٹرول کے میدان میں کچھ پیش رفت کی ہے، تاہم تشہیری سرگرمیاں آج بھی صارفین کے رویے پر اثر ڈال رہی ہیں۔ ان کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق جن ممالک نے تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی، وہاں خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو کے استعمال میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ گرافک ہیلتھ وارننگز ایک ثابت شدہ اور مؤثر ذریعہ ہیں جو نہ صرف تمباکو نوشوں کو چھوڑنے پر آمادہ کرتے ہیں بلکہ نوجوانوں کو ابتدا سے ہی روکنے میں مدد دیتے ہیں۔
معروف صحافی فیصل زاہد ملک نے خطاب میں کہا کہ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ تجارتی دباؤ سے بالاتر ہو کر صحت، سچائی اور دیانت کے اصولوں پر کام کرے۔ ان کے مطابق منافع سے زیادہ عوامی تحفظ کو ترجیح دینا وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے ہم جیت سکتے ہیں، مگر صرف اسی صورت میں جب حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا، اساتذہ، والدین، اور نوجوان مل کر فیصلہ کن انداز میں کام کریں۔‘‘
اجلاس میں پالیسی سازوں، سرکاری عہدیداروں، صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، ماہرینِ تعلیم اور نوجوان تنظیموں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پاکستان میں گرافک ہیلتھ وارننگز کے نفاذ اور تمباکو کی تشہیر سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لیا، اور زور دیا کہ مزید مؤثر اقدامات کے ذریعے تمباکو کنٹرول کی رفتار تیز کی جائے۔