Fri. Aug 1st, 2025

چھ ماہ میں 70 ہزار شکایات موصول ہوئیں: نیشنل سائبر کرائم ایجنسی

386673 1709622644


نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل محمود الحسن نے  جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ان کے ادارے کو گذشتہ چھ ماہ میں 70 ہزار شکایات موصول ہوئی ہیں جبکہ ایک برس میں موصول ہونے والی شکایات کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ادارے کو موصول ہونے والی شکایات میں سب سے بڑی تعداد فائنانشل سائبر کرائم کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر ہراسانی اور ہتک عزت کی شکایات ہیں۔

اس سے قبل جمعرات کو ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ سائبر کرائم میں پیسوں کی لین دین حوالہ ہنڈی یا کرپٹوکرنسی کے ذریعے ہوتی ہے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں آن لائن جرائم کی موثر نگرانی اور کارروائی کرنے والے ادارے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے حکام نے غیر قانونی کال سینٹرز سے متعلق بریفنگ دی۔

ایجنسی کے ڈائریکٹر محمود الحسن نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کے ادارے نے تاحال جعلی کال سینٹرز سے منسلک 248 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

بقول محمود الحسن: ’54 چھاپے مارے گئے جن میں سب سے زیادہ ریڈز اسلام آباد میں کی گئیں۔ اس کے بعد صوبہ پنجاب کے شہروں فیصل آباد اور ملتان میں بھی چھاپے مارے گئے۔‘

ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ عام فہم زبان میں انہیں کال سینٹرز کہا جاتا ہے لیکن یہ اپنی کمپنیوں کا انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کمپنی کے طور پر اندراج کرواتے ہیں۔

’جعلی کال سینٹر‘ کیسے کام کرتے ہیں؟

ڈی جی این سی سی آئی اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ آئی ٹی کمپنی کے نام سے کام کرنے والے ان ’کال سینٹرز‘ میں نئے شامل ہونے والے ملازمین کو پہلے 14 روز مختلف ٹاسک دیے جاتے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا: ’جعلی کال سینٹرز میں ملازمین کا کسی کو بھی پھنسانے کے لیے پہلا قدم اس کی پروفائلنگ کرنا ہوتا ہے۔ سادہ پروفائلنگ کے بعد ٹارگٹڈ پروفائلنگ کی جاتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ افراد اپنے سوشل میڈیا (سماجی رابطے کی ویب سائٹس) پر کیا پوسٹ کر رہے ہیں اور ان پوسٹس کی نوعیت کیا ہے، اس سے ان کی مخصوص چیزوں میں دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔‘

محمودالحسن کے مطابق: ’جعلی کال سینٹرز کے ملازمین زیادہ تر خواتین کے نام سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ اس کے بعد یہ افراد عوام کو مختلف آفرز دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ افراد عوام کو گیمنگ، اشتہار اور سرمایہ کاری سمیت مختلف طریقوں کے ذریعہ جھانسا دیتے ہیں۔ شروع میں متاثرہ فرد چند پیسے جیت جاتا ہے لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی پیسے انویسٹ کریں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پیسوں کا تقاضا یا مطالبہ سماجی رابطے کی ایپلی کیشن ٹیلی گرام پر ہی ہوتا ہے۔ ٹیلی گرام پر مختلف گروپس بنائے جاتے ہیں جہاں بظاہر انویسٹر دکھنے والے افراد متاثرہ فرد کو بھی پیسے لگانے کا کہتے ہیں۔ جب وہ فرد پیسے لگا دیتا ہے تو اسے گروپ سے نکال دیا جاتا ہے اور دیگر جگہوں سے بلاک کر دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پیسوں کی لین دین بینکنگ ایپلی کیشنز کے ذریعے نہیں ہوتی بلکہ حوالہ ہنڈی یا کرپٹوکرنسی کے ذریعے ہوتی ہے۔

ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ سائبر فراڈ میں پکڑے جانے والے کئی افراد کے خلاف کیا گیا کیس کمزور ہوتا ہے اور ان کی ضمانت ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے جھانسے میں آنے والے بیشتر افراد دوسرے ممالک میں مقیم ہوتے ہیں اور پاکستان نہیں آ سکتے، لیکن ان کے سہولت کار پاکستان اور بیرون ممالک مقیم ہوتے ہیں۔

اجلاس کے دوران خصوصی طور پر مدعو کیے گئے وکیل طارق محمود خٹک، جو سائبر کرائم کے کیسز دیکھتے ہیں، نے بتایا کہ یہ جعلی کال سینٹرز ڈارک ویب سے لوگوں کا ڈیٹا لیتے ہیں، جہاں ادارے عوام کا ڈیٹا بیچتے ہیں۔

اس دوران چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر پلوشہ خان نے بتایا کہ ان کا موبائل فون بھی تین مرتبہ ہیک ہو چکا ہے۔

ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ ان کے ادارے میں 434 افراد کام کرتے ہیں اور ان کے پاس افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا پولیس کے پاس فارنزک لیبارٹری ہی نہیں، جس کی وجہ سے دونوں ادارے این سی سی آئی اے کی فارنزک لیبارٹری استمعال کرتے ہیں۔

بعد ازاں کمیٹی نے این سی سی آئی اے کے سربراہ کو بریفنگ کے لیے طلب کر لیا۔ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں ان سے سائبر کرائمز سے متعلق بریفنگ لی جائے گی۔





Source link

By uttu

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *