بنگلہ دیش میں گذشتہ سال حکومت گرانے والے مظاہروں کے بعد سفارتی رخ بدل گیا، جس میں ڈھاکہ نے چین کی طرف جھکاؤ دکھایا، جب کہ پڑوسی انڈیا اپنی پرانی اتحادی شیخ حسینہ کی معزولی پر ناراض ہو گیا۔
ان مظاہروں کے ایک سال بعد، اس نئی صف بندی سے پولرائزیشن میں شدت آنے کا خطرہ اور بیرونی مداخلت کا خدشہ ہے کیونکہ بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتیں اگلے سال ہونے والے انتخابات سے پہلے اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
17 کروڑ آبادی والے ملک میں جمہوری اداروں میں اصلاحات کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا عبوری حکومت کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔
نئی دہلی میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار پروین ڈونتھی کے مطابق ’انڈیا-بنگلہ دیش تعلقات شاید پہلے کبھی اتنے کشیدہ نہیں ہوئے۔‘
ڈھاکہ میں سابق وزیر اعظم حسینہ کے مستقبل کو لے کر شدید غصہ پایا جاتا ہے، جو اگست 2024 میں طلبہ کی بغاوت کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر انڈیا چلی گئی تھیں، جب مظاہرین ان کے محل میں گھس گئے تھے۔
عبوری رہنما اور نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے کہا کہ مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں عوامی غصہ ’انڈیا کی طرف منتقل ہو گیا‘ کیونکہ حسینہ کو وہاں کی ہندو قوم پرست حکومت نے پناہ دی۔
حسینہ، جن کی عمر 77 سال ہے، نے انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے اور انہیں پہلے ہی عدالت کی توہین کے الزام میں غیر حاضری میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے سربراہ ایم ڈی توحید حسین کے مطابق، ’اب تعلقات ایڈجسٹمنٹ کے مرحلے میں ہیں۔‘
محمد یونس مارچ میں اپنے پہلے سرکاری دورے پر چین گئے تھے، جہاں انہوں نے 2.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، قرضے اور گرانٹس حاصل کیں۔ بیجنگ نے براہ راست اہم بنگلہ دیشی سیاست دانوں سے بھی روابط بڑھائے ہیں۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے سینیئر رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا کہ چین ’خلوص، عزم اور محبت‘ سے آئندہ منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے۔
انڈیا طویل عرصے سے چین کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثرورسوخ سے محتاط رہا ہے اور دونوں ممالک جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں، اگرچہ حالیہ دنوں میں دونوں کے درمیان سفارتی درجہ حرارت میں کمی آئی ہے۔
بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری لائی ہے، جو انڈیا کا دیرینہ دشمن ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مئی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار دن تک جاری جنگ میں 70 سے زائد افراد جان سے گئے۔
اس کے بعد کے مہینے میں ڈھاکہ اور اسلام آباد کے حکام نے چین میں ہم منصبوں سے ملاقات کی۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکون کے مطابق، تینوں ممالک نے تجارت، صنعت، تعلیم اور زراعت میں ’تعاون کے منصوبوں‘ پر اتفاق کیا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد عبیدالحق نے کہا کہ چین کے ساتھ مذاکرات ’سودمند‘ رہے، خاص طور پر صحت کے شعبے میں جب انڈیا نے بنگلہ دیشی مریضوں کے لیے میڈیکل ویزے محدود کر دیے۔
انہوں نے کہا، ’جب انڈیا نے رسائی مشکل بنائی تو چین نے بنگلہ دیشی مریضوں کے لیے تین ہسپتال مختص کر دیے۔‘
بنگلہ دیش اور پاکستان، جو 1971 میں آزادی کی جنگ کے بعد الگ ہوئے تھے، نے گذشتہ سال سمندری راستے سے تجارت شروع کی، جبکہ براہ راست پروازیں بھی متوقع ہیں، جس سے نئی دہلی میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
ڈونتھی کے مطابق، ’انڈیا کی موجودہ سیاسی قیادت، اپنی نظریاتی بنیادوں کی وجہ سے… ڈھاکہ میں ایسی حکومت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جو اسلام پسند اور انڈیا مخالف سمجھی جائے۔ ڈھاکہ، اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان واضح روابط اس تصور کو مزید تقویت دیتے ہیں۔‘
انڈیا اور بنگلہ دیش دونوں نے ایک دوسرے پر تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں۔ انڈیا، جو زمینی طور پر بنگلہ دیش کو گھیرے ہوئے ہے، نے پٹ سن، گارمنٹس، پلاسٹک مصنوعات اور خوراک کی درآمد پر سختیاں کی ہیں۔
تاہم، واشنگٹن میں بنگلہ دیش کے سابق سفیر جو انڈیا میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، ایم ڈی ہمائیوں کبیر کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان تجارت اب بھی بلند سطح پر ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ڈھاکہ کو اتحاد بناتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ’کثیر الجہتی تعلقات‘ کو متوازن انداز میں مضبوط کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’ان دو ممالک میں تعاون اب بھی موجود ہے، لیکن گرم جوشی ختم ہو چکی ہے۔‘
ادھر، بنگلہ دیش، جو دنیا کا دوسرا بڑا گارمنٹ برآمد کنندہ ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے اثرات کا بھی شکار ہوا ہے۔
ڈھاکہ نے تجارتی خسارے میں کمی کے لیے بوئنگ طیاروں کی خریداری اور امریکی گندم، کپاس اور تیل کی درآمد بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ جون میں محمد یونس نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ’تعلقات مضبوط کرنے کے عزم‘ سے آگاہ کیا۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدگی میں جلد کمی کا امکان نہیں، اور یہ بڑھ بھی سکتی ہے۔
ڈونتھی نے کہا، ’صورت حال صرف اس وقت تبدیل ہو سکتی ہے جب نئی دہلی انتخابی عمل سے مطمئن ہو اور اسے ڈھاکہ میں اپنی مرضی کی قیادت نظر آئے۔‘
انہوں نے کہا: ’اس کا امکان بہت کم ہے کہ انڈیا موجودہ عبوری حکومت کو تسلیم کرے گا۔ ممکن ہے انڈیا تعاون کی بجائے اس حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔‘