کیا قومی اداروں کے نام حکمرانوں سے منسوب ہونے چاہییں؟

uttu
10 Min Read


یہ وضاحت تو کر دی گئی کہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام بدل کر مریم نواز شریف کے نام پر رکھنے کی خبریں غلط ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا قومی ادارے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے منسوب ہونے چاہییں؟

 کوئی ایک آدھ ادارہ کسی سے منسوب کر دیا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہاں تو دو خاندانوں کی کشور کشائی کا انبار لگا ہے۔ آدمی دیکھتا ہے اور حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔

ملتان میں انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک یونیورسٹی قائم کی گئی اس کا نام نواز شریف یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔

ملتان ہی میں ایک زرعی یونیورسٹی قائم ہوئی یہ نواز شریف زرعی یونیورسٹی کہلاتی ہے۔ ملتان ہی میں ایک سرکاری ہسپتال ہے اس کا نام شہباز شریف ہسپتال رکھ لیا۔

سیالکوٹ میں ایک ڈگری کالج قائم کیا گیا۔ یہ لڑکیوں کا کالج تھا لیکن اس کا نام میاں نواز شریف گرلز ڈگری کالج سیالکوٹ رکھ دیا گیا۔

حضرو میں لڑکیوں کے ایک سکول کا نام میاں نواز شریف گرلز ہائی سکول نمبر 2 ہے۔ منڈی بہاولدین میں بھی ایک گرلز کالج کا نام نواز شریف گرلز کالج ہے۔

سیالکوٹ ہی میں ایک کالج کا نام گورنمنٹ شہباز شریف ڈگری کالج ہے۔ اسی شہر میں ایک میڈیکل کالج بھی ہے۔ اس کا نام خواجہ صفدر میڈیکل کالج ہے۔

چونا منڈی میں ایک کالج کا نام نواز شریف ڈگری کالج ہے۔ سرگودھا میں بھی ایک نواز شریف ڈگری کالج ہے۔

گجرات میں ایک میڈیکل کالج بنایا گیا۔ اس کالج کو اب نواز شریف میڈیکل کالج گجرات کہا جاتا ہے۔

راولپنڈی میں خیابان سرسید میں ایک ڈگری کالج بنایا گیا۔ 18 کنال زمین حکومت پنجاب نے دی، لیکن نام ہے: شہباز شریف ڈگری کالج خیابان سر سید۔

راول پنڈی ہی میں مری روڈ پر ایک پارک ہے، اسے نواز شریف پارک کہتے ہیں۔

راول روڈ پر ایک کمپلیکس بنایا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے اس کے لیے 90 کنال زمین مختص کی اور اس پر 87 ملین کی لاگت کا تخمینہ ہے۔ اسے شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس کہا جاتا ہے۔

قصور میں بھی ایک سپورٹس کمپلیکس قائم کیا گیا ہے۔ اس کا نام بھی شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس رکھ دیا گیا۔

سرگودھا میں سول ہسپتال کے اندر ایک کارڈیالوجی سینٹر بن رہا ہے، اس کا نام نواز شریف کارڈیالوجی ہسپتال ہے۔

ایک عدد نواز شریف ہسپتال یکی گیٹ لاہور میں ہے۔ لاہور میں ہی ایک نواز شریف سکیورٹی ہسپتال ہے۔ ملتان کا جنرل ہسپتال اب شہباز شریف ہسپتال کہلاتا ہے۔

سرگودھا میں یونیورسٹی روڈ پر ایک پل بنا ہے اس کا نام نواز شریف برج ہے۔ لاہور کا فلائی اوور بھی نوازشریف فلائی اوور کہلاتا ہے۔

جہلم میں ایک پل بنایا گیا جو تعمیر ہونے سے پہلے گر گیا۔ اس کا نام شہباز شریف برج ہے۔ اسی طرح سیالکوٹ میں بھی ایک پل کو شہباز شریف سے منسوب کیا گیا۔

اسلام آباد میں ایک شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی ہے۔ جامشورو میں ایک میڈیکل کالج کا نام بلاول بھٹو زرداری میڈیکل کالج ہے ۔

جامشورو اب بےنظیر آباد ہو چکا ہے۔ اس بےنظیر آباد میں ایک کیڈٹ کالج کا نام بختاور بھٹو کیڈٹ کالج ہے۔

اسی بےنظیر آباد میں ایک یونیورسٹی کا نام بےنظیر بھٹو شہید یونیورسٹی ہے۔ بےنظیر آباد ہی میں ایک ڈسٹرکٹ سکول کا نام بھی بےنظیر بھٹو سکول ہے۔

اپر دیر میں بھی ایک شہید بےنظیر بھٹو یونیورسٹی قائم ہے۔ ایک شہید بےنظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور میں ہے۔

لاڑکانہ میں ایک یونیورسٹی کا نام شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی ہے۔ لاڑکانہ میں ایک شہید بےنظیر گرلز کالج ہے۔

ایک بےنظیر بھٹو ڈگری کالج کراچی میں ہے۔ کراچی میں ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کی ایک یونیورسٹی قائم کی گئی، اس کا نام بھی شہید بےنظیر یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔

کراچی میں ایک یونیورسٹی کو شہید بےنظیر بھٹو سٹی یونیورسٹی اور دوسری کو شہید بےنظیر بھٹو دیوان یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔

راول پنڈی جنرل ہسپتال کا نیا نام بےنظیر بھٹو ہسپتال ہے۔ لیاری میں قائم میڈیکل کالج کو شہید بےنظیر بھٹو میڈیکل کالج کہتے ہیں۔

کراچی میں قائم اے این ایف ہسپتال کو اب بےنظیر بھٹو شہید اے این ایف ہسپتال کہا جاتا ہے۔ لاڑکانہ کے ڈینٹل کالج کو بےنظیر بھٹو ڈینٹل کالج لاڑکانہ کا نام دیا گیا ہے۔

سکھر میں ایک بیگم نصرت بھٹو ویمن یونیورسٹی ہے۔ خیر پور میں بےنظیر بھٹو شہید یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ سکل ڈیویلپمنٹ ہے۔

لیاری کے گرلز کالج کا نام شہید بےنظیر بھٹو گرلز کالج ہے۔ گلشن اقبال کراچی کے کالج کو ذولفقار علی بھٹو گورنمنٹ کالج کہتے ہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیاری میں ایک لڑکوں کا کالج ہے مگر اس کا نام نصرف بھٹو گورنمنٹ کالج ہے۔ لانڈھی کے ایک ڈگری کالج کا نام آصفہ بھٹو زرداری ڈگری کالج ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے ارباب نیاز سٹیڈیم کا نام عمران خان سٹیڈیم رک دیا، لیکن عمران خان نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ معلوم نہیں اب اس کا نام کیا ہے۔

تاہم یہ ایک حقیتت ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں کوئی ادارہ عمران خان کے نام سے منسوب نہیں کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اس مشق سے سیاسی حکمرانوں کو کیا ملتا ہے؟ یہ اصل میں ایک احساس کمتری ہے جو اس شکل میں ظہور کرتا ہے۔

گلاب دیوی ہسپتا ل اور گنگا رام ہسپتال جیسے ادارے ان مخیر لوگوں نے اپنے پیسے سے بنوائے تھے۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں نے نئی رسم ڈالی ہے کہ ادارے تو قومی خزانے سے بنوائے لیکن اوپر تختیاں اپنی لٹکا دیں۔

ایک عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نیم خواندہ معاشرے میں ووٹ لینے کے لیے یہ مجبوری ہے کہ جو کام کیا جائے اس پر اپنا نام لگایا جائے تاکہ لوگ یاد رکھیں۔ یہ عذر بھی نامعتبر ہے۔

موٹر وے نواز شریف دور میں بنی، اس کا نام نواز شریف موٹر وے نہیں لیکن سب کو معلوم ہے یہ کام نواز شریف کا ہے۔

اسی طرح 1122 کا ادارہ، پرویز الہٰی کے دور میں بنا۔ اس کا نام پرویز الہٰی ایمبولینس سروس نہیں، لیکن اس کے باوجود سب کو علم ہے یہ کام پرویز الہٰی کا ہے۔

اچھے کام یاد رہتے ہیں، ان پر اپنے نام کے غیر ضروری جھنڈے گاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں کسی کو زیادہ شوق ہے تو یہ کام اسے ذاتی پیسوں سے کرنا چاہیے۔

مختلف شعبوں میں (بشمول سیاست) معاشرے کے اپنے نمایاں لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ قومی سطح کے رجال کار ہوتے ہیں کچھ مقامی۔ موقعے کی مناسبت سے اداروں کو ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔

مثلا کوئی اچھا کھلاڑی رہا ہے تو کھیل سے جڑی کوئی چیز اس سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ کوئی علمی ادارہ کسی صاحب علم سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

مشاہیر اور شہدا کے ناموں پر بھی اداروں کے نام رکھے جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کی ابھی اپنی اہمیت ہوتی ہے ان میں سے کسی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے کوئی ایک آدھ ادارہ منسوب ہو جائے تو کوئی قباحت نہیں۔

 لیکن کراچی سے خیبر تک دو خاندانوں نے اپنے ناموں کے جھنڈے گاڑنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس کا کوئی جواز نہیں۔

اتنے ادارے تو قائد اعظم اور علامہ اقبال سے منسوب نہیں جتنے بھٹو اور شریف خاندان سے منسوب ہو چکے ہیں۔

قائد اعظم کے نام پر ایک یونیورسٹی ہے، ایک یونیورسٹی اقبال کے نام پر ہے لیکن نواز شریف کے نام پر دو اور بےنظیر بھٹو کے نام پر پانچ یونیورسٹیاں ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ خدا جانے سکور بورڈ کہاں جا کر رکے۔

 رک جائیے صاحب، بس کر دیجیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔





Source link

Share This Article
Leave a Comment