خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اور خصوصی طور پر شمالی و جنوبی وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے جس وجہ سے ان علاقوں میں ایک ماہ تک جزوی کرفیو بھی نافذ ہے۔
عسکریت پسندوں کی جانب سے علاقے میں کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جانب سے خفیہ معلومات کی بنیاد پر جوابی آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔
علاقے میں کرفیو اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی وجہ سے امن مارچ کے شرکا پریشان تھے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ہی حالات 2007 سے 2014 کے درمیان بھی بنے تھے جن کی وجہ سے لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی اور لوگوں کو شدید مشکلات برداشت کرنی پڑیں تھیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اور جمعرات کو ہونے والے جرگے اور امن مارچ میں شرکت کرنے والے مکین کے رہائشی سماجی کارکن شیر زادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس جرگے کا مقصد بدامنی کے مسئلے کا حل نکالنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ عوام میں سب سے زیادہ تشویش نقل مکانی کی ہے کیونکہ وہ پہلے بھی ایک مرتبہ گھر بار چھوڑ کر اپنے علاقے سے نکل گئے تھے اور پھر واپس آگئے لیکن اب لگتا ہے کہ دوبارہ ایسے حالات بن رہے ہیں۔
شیر زادہ نے بتایا، ’آج یہ جرگہ شروع ہوا ہے جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان شریک ہیں اور جرگے کے بعد وہ تجاویز حکومتی عہدیداروں کو حوالے کریں گے۔‘
شیر زادہ کے مطابق ’علاقے میں شدت پسندی عروج پر ہے اور شدت پسندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپوں میں عوام کی متاثر ہونے پر بھی یہاں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ علاقے میں ایک مرتبہ پھر خوف کی فضا قائم ہوگئی ہے اور اس گرینڈ جرگے کا اصل مقصد ہی اس مسئلے کا حل نکالنا ہے۔‘
علاقے میں امن قائم کرنے اور کاروبار زندگی متاثر ہونے کے خلاف جعمرات کو شمالی وزیرستان کے علاقے مکین میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔
اس سال 18 مئی کو شمالی و جنوبی وزیرستان میں ایک گرینڈ جرگہ بھی منعقد ہوا تھا جس میں امن و امان کی حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، تاہم علاقے میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی گئی تھی۔
جرگہ اراکین کی طرف سے جاری اعلامیے میں مختلف کارروائیوں میں عام عوام کی متاثرہ ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا جبکہ کرفیو سے علاقے کے لوگوں کے مشکلات بڑھنے پر بھی بات کی گئی تھی۔
وزیرستان میں کرفیو کی وجہ سے طلبہ کے میٹرک کے امتحانات ملتوی، تعلیمی ادارے بند جبکہ مارکیٹیں شام سے پہلے پہلے بند کر دی جاتی ہیں۔
اسی طرح مخدوش حالات کی وجہ سے کسی قسم کے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے یا منظوری دینے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
تاہم علاقہ مکینوں کے مطابق سب سے تشویش کی بات سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں عوام کا متاثر ہونا ہے۔
عام شہریوں کے متاثر ہونے کا معاملہ
شمالی وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصے میں شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں میں عام شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں جبکہ علاقہ مکینوں کے مطابق کواڈ کاپٹر اور ڈرون کی مبینہ استعمال کی باتیں بھی کی جاتی ہیں جس سے عام شہری نشانہ بنتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے جنوبی وزیرستان کے لدھا کے علاقے میں مقامی افراد کے مطابق سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے دوران ایک مکان میں ایک خاتون کی موت واقع ہوئی تھی، تاہم اس حوالے سے سرکاری موقف سامنے نہیں آیا تھا۔
ایسا ہی ایک واقعہ 19 مئی کو پیش آیا تھا جس میں میر علی کے گاؤں ہرمز میں ایک مکان میں پولیس کے مطابق مبینہ کواڈ کاپٹر حملے کے نتیجے میں چار بچے جان سے گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد مقامی افراد کی جانب سے دھرنا بھی دیا گیا تھا اور چھ دن بعد انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں بھی 21 جون کو ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں جنوبی وزیرستان کے رکن صوبائی اسمبلی آصف خان کے مطابق پانچ بچے مبینہ ڈرون حملے میں زخمی ہوئے تھے اور ایک فرد کی موت واقع ہوئی تھی۔
آصف خان نے اس حوالے سے ایک قرارداد بھی صوبائی اسمبلی میں پیش کی تھی کہ کولیٹرل ڈیمیج کی وجہ سے عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہے۔
حکومتی موقف
عام شہریوں کے نشانہ بننے کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں بتایا تھا کہ شدت پسند عام طور پر سویلین آبادی میں آ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان مین ان کی متعلقہ حکام سے بات ہوئی ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ ’کولیٹرل ڈیمیج‘ ہوجاتا ہے کیونکہ عسکریت پسند رات کے وقت سویلین آبادی میں آکر قیام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’سویلین آبادی میں چونکہ اداروں کے لیے کارروائی مشکل ہوتی ہے تو جب کوئی جھڑپ ہوتی ہے تو اس سے بعض دفعہ عام شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا اور اس کی ایک مثال حالیہ سکیورٹی قافلے پر حملہ ہے جس میں کچھ بچے اور عورتیں زخمی اور گھروں کی چھتیں گر گئی ہیں۔‘
بیرسٹر سیف نے ڈرون اور کواڈکاپٹر کے استعمال کے حوالے سے بتایا کہ یہ انہیں واضح نہیں ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے یہ استعمال ہوتا ہے یا کون استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شدت پسندوں کی کچھ ویڈیوز میں اس کا استعمال دکھایا گیا ہے لیکن چونکہ وہاں جنگی ماحول ہے اور سکیورٹی فورسز علاقے کو کنٹرول کر رہی ہیں، تو یہ ان کا مینڈیٹ ہے کہ اس حوالے سے تفصیلات دیں۔
وزیرستان کے علاوہ ضلع بنوں میں بھی گذشتہ روز دو کواڈ کاپٹر ڈرون حملے کیے گئے ہیں جس میں پولیس کے مطابق ایک حملہ پولیس سٹیشن میریان پر ہوا تھا لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔
اسی طرح اسی دن بنوں کے تھانہ ہوید کی حدود میں ایک گھر پر ہوا تھا جس میں پولیس کے مطابق ایک خاتون جان سے گئیں اور دو بچے زخمی ہوئے ہیں۔
حالات یہاں تک کیسے پہنچے؟
محسن داوڑ وزیرستان سے سابق رکن قومی اسمبلی ہیں اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ ہیں جنہوں نے ماضی میں وزیرستان میں بد امنی کے خلاف مظاہرے بھی منعقد کیے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیرستان میں گذشتہ چھ سات سالوں سے جب بھی بدامنی میں اضافہ ہوا ہے، تو عوام نے مظاہرے کیے ہیں تو آج کا مظاہرہ اچانک نہیں ہوا ہے۔
محسن داوڑ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد حالات ایسے ہوگئے کہ اب عام مذمت کام نہیں کرتی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محسن داوڑ نے بتایا کہ عوام ماضی میں فوجی آپریشنز سے دربدر ہوگئے تھے اور اب دوبارہ عوام کو یہی خدشہ ہے کہ مزید آپریشنوں سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
سکیورٹی اداروں کی جانب سے ابھی تک وزیرستان میں کسی بڑے آپریشن کا اعلان نہیں کیا، تاہم یہ ضرورت بتایا ہے کہ صوبے کے مختلف مقامات پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جاتے ہیں۔
بدامنی کے حل کے حوالے سے محسن داوڑ نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے سے شدت پسندی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ افغان طالبان کو اب بھی پاکستان کی ضرورت ہے۔
محسن داوڑ کے مطابق ’میرے خیال میں خطے میں بدامنی بظاہر چین سے حالات خراب کرنے کے لیے کی جا رہی ہے کہ پہلے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم کی گئی اور اب اس پورے خطے میں بدامنی کی فضا قائم کی جا رہی ہے۔
رسول داوڑ شدت پسند تنظیموں کی رپورٹنگ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف رہنماؤں کے انٹریوز بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیرستان میں اب لوگوں کو زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ ان کو دوبارہ آپریشن کا سامنا اور نقل نکانی کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ علاقہ مکینوں کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم جب کسی بھے جھڑپ یا اپریشن میں عوام متاثر ہوتے ہیں تو یہی ان کے لیے تکلیف دہ ہے۔
انہوں نے بتایا، ’ابھی جو حالات بنے ہیں تو اس سے لوگوں کے کاروبار ایک بار پھر خراب ہوگئے ہیں جبکہ پہلے آپریشنز کے بعد لوگوں نے واپس جا کر اپنے کاروبار دوبارہ پاؤں پر کھڑے کیے ہی تھے۔‘
صوبے کے دیگر سابق قبائلی اضلاع باجوڑ اور خیبر میں بھی امن عامہ کی بگڑتی صورت حال پر لوگوں میں اسی قسم کے خدشات کی وجہ سے احتجاج دیکھا جا رہا ہے۔