2025 کے ابتدائی مہینوں میں کراچی میں آگ لگنے کے کئی واقعات نے نہ صرف مالی و جانی نقصان پہنچایا بلکہ شہر کے فائر سیفٹی نظام کی کمزوریوں، ریسکیو اداروں کی صلاحیتوں اور حکومتی غفلت کو بھی بےنقاب کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آتشزدگی کے یہ واقعات ناقص منصوبہ بندی، بوسیدہ انفراسٹرکچر اور کرپشن کا نتیجہ ہیں جس نے کراچی جیسے بڑے شہر کو بنیادی شہری سہولیات سے محروم کر رکھا ہے۔
کراچی میں حالیہ مہینوں کے دوران آگ لگنے کے متعدد بڑے واقعات پیش آئے، جنہوں نے شہر کے ریسکیو اور فائر فائٹنگ نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔
لانڈھی پروسیسنگ زون، صدر الیکٹرونک مارکیٹ اور ملینیم مال میں لگنے والی آگ نے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا اور فائر بریگیڈ کی کارکردگی پر شدید تنقید کو جنم دیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سات اور آٹھ جون کی درمیانی شب لانڈھی میں واقع ایک کاسمیٹکس فیکٹری میں آگ بھڑکنے سے ساتھ والی دو فیکٹریوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔
متاثرہ فیکٹری کے مالک عرفان حنیف کے مطابق عید کی تعطیلات کے سبب عملہ موجود نہ تھا اور فائر بریگیڈ نہ صرف تاخیر سے پہنچی بلکہ مناسب آلات اور حکمت عملی سے محروم تھی۔
صرف ایک ہفتے بعد 16 جون کو صدر کی ریگل چوک میں واقع الیکٹرانک مارکیٹ میں آگ لگنے سے 40 سے زائد دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں۔
کراچی موبائل مارکیٹ کے جنرل سیکریٹری عابد سوریا کے مطابق نقصان دو ارب روپے سے زائد ہوا۔ انہوں نے فائر بریگیڈ کے تاخیر سے پہنچنے اور مارکیٹ میں مناسب فائر سسٹم کی عدم موجودگی کا اعتراف کیا۔
اس کے دو دن بعد ملینیم مال میں بھی آگ بھڑک اٹھی جسے بجھانے میں سات گھنٹے لگے۔ ریسکیو کارروائی میں 14 گاڑیوں، چار اسنارکلز اور چار واٹر باؤزرز نے حصہ لیا۔
چیف فائر آفیسر ہمایوں خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کراچی میں روزانہ 20 سے 22 آتشزدگی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
2024 میں دو ہزار 328 جب کہ 2025 کے ابتدائی چھ مہینوں میں بارہ سو سے زائد واقعات ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر میں صرف 28 فائر سٹیشنز موجود ہیں، جو کہ ساڑھے تین کروڑ آبادی والے شہر کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔
فائر بریگیڈ حکام کے مطابق شہر کی پیچیدہ ٹریفک صورت حال کے باعث جائے وقوعہ پر بروقت پہنچنا ممکن نہیں ہوتا، جس سے آگ تیزی سے پھیل جاتی ہے۔
فائر حکام کی بنائی گئی رپورٹ کے مطابق آگ لگنے کی سب سے بڑی وجہ شارٹ سرکٹ کو قرار دیا گیا ہے، بالخصوص ان عمارتوں میں جہاں فالس سیلنگ کے پیچھے خراب تاریں نصب ہوتی ہیں اور عملہ موجود نہیں ہوتا۔
فائر بریگیڈ حکام کے مطابق ’صدر موبائل مارکیٹ میں تنگ گلیوں اور ناقص نکاسی کے باعث ریسکیو میں شدید مشکلات پیش آئیں، جب کہ ڈیفنس سمیت دیگر علاقوں میں پانی کی قلت فائر بریگیڈ کے لیے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔
’بیشتر فائر سٹیشنز کے پاس پانی کا ذخیرہ موجود نہیں ہوتا اور موقع پر متبادل ذرائع سے بندوبست کرنا پڑتا ہے۔‘
ہمایوں خان کا کہنا تھا کہ فائر بریگیڈ کو دفاعی ادارے کا درجہ ملنا چاہیے تاکہ وسائل اور اختیارات میں اضافہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہر میں فائر سیفٹی سے متعلق عوامی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان نے بتایا کہ شہر کی بگڑتی حالت کی بنیاد گذشتہ دو دہائیوں میں رکھی گئی، جب بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات، کرپشن اور ناقص انفراسٹرکچر نے شہر کی شناخت کو شدید نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے دور میں کراچی میں صرف 18 فائر ٹینڈرز تھے۔ میری درخواست پر محترمہ بےنظیر بھٹو نے سپین سے 100 فائر ٹینڈرز منگوانے کی منظوری دی تھی، مگر میرے بعد آنے والے حکام نے وہ سازوسامان فروخت کر دیا۔‘
فہیم زمان کے مطابق، 1998 تک کراچی میں منظم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم، کنٹرولڈ تعمیرات اور مضبوط شہری انفراسٹرکچر موجود تھا، جو اب مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
بغیر منصوبہ بندی کے بلند عمارتیں، ناقص الیکٹریکل انسٹالیشنز اور کمزور شہری انتظامیہ نے شہر کو ہر قسم کے حادثات ککا خطرہ لاحق کر دیا ہے۔
فہیم زمان نے کہا، ’میرے دور میں الیکٹریکل فائر ایک انہونی سمجھی جاتی تھی، لیکن اب یہ ایک معمول بن چکی ہے۔ کراچی کا شہری نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے۔‘